Category (مطلع): مدح
Topic (کیٹگری): امام حسن مجتبیؑ
Poet (موضوع): محسن نقوی شہیدؒ
چمکتا ہے کہاں افلاک پر مہرِ مبیں ایسا
کہاں ہوگا ولایت کی انگوٹھی میں‌ نگیں ایسا

خدا محفوظ رکھے چشمِ بَد سے حسن حیدر ؑ کو
بڑی مشکل سے پایا ہے نبی ؐ نے جانشیں ایسا

لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کانام
لکھا ہے پنجتن کی حسیں انجمن کا نام

سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کانام
آیا مری زبان پہ امام حسن ؑ کا نام!

جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال دی
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال دی

سرچشمہء نجاتِ بشر، حسن ؑ کردگار
انسانیت کے باغ میں پیغمبر بہار

حاجت روا، حسیں اَنا مست بردبار
وہ اَمن و عافیت کی حکومت کا تاجدار

تشبیہہ دوں کسی سے مری کیا مجال ہے؟
بس اتنا کہہ رہا ہوں، حسان ؑ بے مثال ہے

زہراءؑ کا چاند، ابنِ علیؑ ، مصطفی کا نور!
جس کی جبیں سے پھوٹ رہی ہے شعاعِ طور

رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا سرور
جس کی ہر اک ادا سے نمایاں نیاشعور

چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑدی
کھولی زباں تو ظلم کی رنجیر توڑ دی!

وہ مجتبی وہ عالمِ لَوحِ فلک مقام!
معراج فکر، سدرہ نظر، عرشِ احتشام

ایسا سخی، مَلک بھی کریں جس کا احترام
دشمن سے بھی لیا نہ کبھی جس نے انتقام

جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش دی

اللہ رے آب و تابِ رُخِ ابنِ بوتُراب!
اب تک خراج دے کے گزرتا ہےآفتاب

لَوحِ جبیں، وہ علمِ امامت کا ایک باب
رفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دےحساب

بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تلے ہوئے
جیسے فلک پہ صلح کے پرچم کھلے ہوئے

کاکُل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک رات
چہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات

دیتے ہیں جان، جنبشِ ابرو پہ معجزات
اَفشا ہے "راز کن" کہ کشادہ حسن ؑ کا ہاتھ

ہیں شاخِ گل میں اوس کی بوندیں اَڑی ہوئی
یا زلفِ مجتبٰی میں ہیں گِرہیں پڑی ہوئی

آنکھیں ہیں یا چراغ اَبد کی فصیل کے
پلکیں ہیں یا حروف لبِ جبرئیل کے

عارض ہیں یا کنول مہ و انجم کی جھیل کے
اعضا ہیں یا نقوش خیالِ جمیل کے

چہرہ حسن ؑ کا ہے شبیہہِ رسولؐ ہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دھول ہے

یہ پھول پھول رنگ، طبیعت یہ باغ باغ
کونین پر محیط مزاجِ دل و دماغ

جس کی مئے اَنا سے پگھلنے لگے ایاغ
مہتاب حسن ؑ بندِ قبا سے ہے داغ داغ

جس کی مدد سے حق کی سدا برتری ہوئی
جس کی قبا کو دیکھ کے دنیا ہری ہوئی

جو دلنشیں گریز کرے نام و ننگ سے
انساں کو تولتا نہ ہو تیروتفنگ سے

جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ سے
وہ امن آشنا، جسے نفرت ہو جنگ سے

صحرا، چمن کرے جو حدودِ چمن کے بعد
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا، حسن ؑ کے بعد

جس کا سلوک، خلقِ نبی کا سلام لے
حق دے کے جو عدو سے حقیقی مقام لے

دستِ اجل سے ہنس کے جو رخت دوام لے
اِک جنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام لے

سلطانی بہشت، جسے کردگار دے
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ ماردے

ٹکرائے گا حسن ؑسے کہاں کوئی بے نسب
یہ وجہ ذوالجلال وہ اِبلیس کاغصب

حیدر کہاں، کہاں کوئی فرزندِ بنت شب
زہرا سے کیا ملے کوئی حمالہ الحطب

بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول ہے
وہ پیکرِ خطا تو یہ ابنِ رسولؐ ہے

گردِ خزف کجا، رُخ دُر نجف کُجا
قطرہ کجا، یہ قلزمِ کوثر بکف کجا

در یوزہ گر کجا، شہ عالی شرف کجا
کنکر کجا، یہ جوہر حسن ؑ صدف کجا

"تحت الثریٰ کو ہمسرِ عرشِ علا کھوں؟
دنیا، ترے ضمیر کی پستی کو کیاکھوں؟

اے شہسوارِ دوشِ پیمبر مرے امام
اے والیِ بہشت بریں، رحمت تمام

تونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا جام
تجھ کو غرورِ عظمت سقراط کا سلام

انساں کو آشتی کا قرینہ سکھا دیا
تونے دلوں کو چین سے جینا سکھادیا

عالم میں ہے نجاتِ بشر کی نویدتو
محشر میں باب خلدِ بریں کی کلیدتو

دوبار راہ حق میں ہوا شہیدتو
جنت تو کیا ہے، عرشِ معلی خریدتو

کیا زہر کم تھا، تلخ کلامی کےواسطے؟
اَبِ تیر آرہے ہیں سلامی کےواسطے

کیوں بجھ گیا چراغِ نبی کے مزارکا؟
کیوں رنگ اُڑ گیا ہے غمِ روزگارکا

بڑھتا ہے اِضطراب دلِ سوگوارکا
پردے میں شور کیوں‌ ہے کسی پردہ دار کا

پھر زخم ہوگیا کوئی تازہ، الہٰی خیر!
پھر گھر کو آرہا ہے جنازہ، الہٰی خیر!!

زہرا ءؑکے لال، تیرے چمن کو مراسلام
تیری ہر اک اُداس بہن کو مرا سلام

عباس کی جبیں کی شکن کو مراسلام
چھلنی بدن کو سرخ کفن کو مرا سلام

صدمہ ترا بہت ہے شہ مشرقین کو پُرسہ
میں دے رہا ہوں اِمام حسینؑ کو
Contributor:

Provided soft copy of the text

غلام مرتضی انصاری
قم المقدس