Category (مطلع): مناجات
Topic (کیٹگری): باری تعالیٰ
Poet (موضوع): مولانا ظفرحسن امرہویؒ
یارب غنی ذات تیری بے نوا ہوں میں
پابند صد حوادث رنج و بلا ہوں میں

سینہ فگار خنجر حرص و ہوا ہوں میں
تو ہے کریم اور تیرے درکا گدا ہوں میں

معبود اپنے عبد کی حالت پر رحم کر
غربت پہ بے کسی پہ مصیبت پہ رحم کر

جز تیرے کوئی خلق کا حاجت روا نہیں
ہے کو ن جس پہ تیرا کرم اور عطا نہیں

واحد ہے تو شریک تیرا دوسرا نہیں
سب کو فنا ہے ذات کو تیری فنا نہیں

بے کس کا تو انیس ہے ہمدم علیل کا
حقا جواب ہے نہیں تجھ سے کفیل کا

سر تیرے در پہ جھکتا ہے شاہ و وزیر کا
مطلب ہے گر غنی کا تو مقصد فقیر کا

بیکس کی کائنات فقط تیری ذات ہے
بست و گشود بندوں کی سب تیرے ہاتھ ہے

مظلوم کو ستم سے امان دینے والا تو
غربت میں راستہ کا نشان دینے والا تو

بیمار غم کو تاب و توان دینے والا تو
بوسیدہ استخوان میں جان دینے والا تو

بندوں کی تجھ سے کیسے بھلا التجا نہ ہو
توہی تو اس کا ہے کوئی جس کا رہا نہ تو

شفقت ہزارباپ سے بھی تجھ کوہے سوا
سنتا ہے اپنے بندوں کی بیشک تو التجا

درکا رہو جسے وہ کرے شوق سے دعا
تیرا در قبول ہے ہردم کھلا ہوا

تو خوش ہو جتنی تجھ سے کوئی التجا کرے
حاضر ہے اس کے واسطے جو کچھ دعا کرے

بندہ کے تو گناہوں کا یا رب ہے پردہ دار
رحمت ہے عام تیری کرم تیرا بے شمار

لاکھوں گناہ گر کرے کوئی گناہ گار
توبہ سے بخش دیتا ہے تو سب کو کردگار

اہل خطا پہ رزق کا مسدود در نہیں
عذر آوروں پہ قہر کی تیری نظر نہیں

اے کل کے کارساز تیری عام ہے عطا
سنتا ہے اپنے بندوں کی بیشک تو التجا

ادنی سا میں بھی ہوں تیرا ایک عبد بے نوا
بے کس غریب کشتہ دردو غم اور بلا

ذرے کو اپنے فضل سے مہر منیر کر
مجھ پر بھی رحم اے مرے رب قدیر کر

حال زبون پہ اے مرے غفار رحم کر
خواہاں ہوں تیرے رحم کا دادار رحم کر

شرمندہ ہوں کہ تیری اطاعت نہ کرسکا
محجوب ہوں کہ دل سے عبادت نہ کرسکا

نیکی کا نام تک نہیں فرد حساب میں
کیا چیز لے کے آؤں گا تیری جناب میں

عصیان کا بار سر پہ مرے بے شمار ہے
اعمال زشت سے مرا دل شرمسار ہے

کچھ کارنیک از پئے عقبی نہ ہوسکا
زاد سفر بھی مجھ سے مہیا نہ ہوسکا

مغرور تیرے درسے میں اے کبریا رہا
لایق نہ تیری شان کے سجدے کبھی کیا

انجام اپنے کام کا پیش نظر نہ تھا
کچھ ارتکاب جرم سے مجھ کو حذر نہ تھا

دنیا کے عیش کا مجھے ہر دم رہا خیال
باقی سمجھ رکھا تھا اسے جس کو تھا زوال

صوم وصلاة جان کو گویا تھی ایک وبال
تن پروری کی فکر میں تھا نفس کا کمال

یارب میں گرچہ تجھ سے بغاوت کئے گیا
لیکن تو اپنےفضل سے روزی دئے گیا

مشکل کے وقت جب کبھی فریاد و آہ کی
معبودتونےلطف کی مجھ پر نگاہ کی

رحمت کو تیری دیکھ کے مجھ سے ہوئی خطا
امید عفو پر میں جرائم کئے گیا

ہے بال بال گرچہ خطا سے بندھا ہوا
مایوس پر میں تیرے کرم سے نہیں ہوا

مانا کہ مجھ سا کوئی نہیں ہے سیہ کار
رحمٰن تجھ سا بھی تو نہیں میرے کردگار

لائق ہوں اس سزا کے جو تجویز ہو سزا
دوزخ میں پھونک دے مجھے رکھ کر تو ہے بجا

لیکن رحیمی کا یا رب ہے اقتضا
مجھ سے گناہ گار کی بھی بخش دے خطا

تو ہے کریم میرے معاصی کو بخش دے
مجھ سے بھی عبد مذنب و عاصی کو بخش دے

یارب اسیر قید خطا کو نجات دے
محبوس دارم رنج و بلا کو نجات دے

جز تیرے جا کے کس سے بھلا التجا کروں
یارب میں اپنے حال پہ کب تک بکا کروں

توفیق مجھ سے تیری اطاعت کی کم نہ ہو
بس اک غم حسین ہو اور کوئی غم نہ ہو
Contributor:

Provided soft copy of the text

غلام مرتضی انصاری
قم المقدس